(
مرحوم خواجہ عبدل سبحان میر (میرے نانا جیتحریر خادم محمد الطاف
زندگی کے قیمتی سال گذرتے گیے اور ھم سے ھمارے اپنے جدائی اختیار کرتے گیے. ان میں سے ہی میرے نانا محترم بروز جمعہ المبارک عید الضحٰی کے عرفے کے دن کے ٣١ جولائی ٢٠٢٠ کو تقریباً ٦ بجے بعد از نماز عصر سورت یٰسین کی تلاوت سنتے ہوئے اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے اور ھمیں اس دنیا فانی میں زندگی کے باقی سال گذارنے کے لئے اکیلے چھوڑ گیے.
آپ ایک اعلیٰ اخلاق کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ زمینداری کے اصولوں کے جانے مانے ماہر تھے. قدموں سے زمین کی پیمائش کرنا ان کی ایک خاص پہچان تھی. زمینداری کے اصولوں کو کیسے اپنایا جائے ان کی اولین ترجیحات میں شامل ہوا کرتی تھی. آپ لوگوں کے لئے جائیداد کے تنازع پر تقسیم جائیداد میں ماہر ماننے جاتے تھے. جائیداد تقسیم کرنے کا فن اگرچہ بہت پیچیدہ ہے مگر آپ ھمیشہ اس کو اپنے نرالے انداز میں تقسیم کر کے دونوں فریقین کو خوش کر دیتے تھے تاکہ آگے جا کر کہیں لڑائی جھگڑے کی نوبت نہ آ جائے.. میوہ باغات میں پیوند، چشم اور دیگر ٹیکنیکی کام میں بھی ماہر ماننے جاتے تھے. زندگی کے آخری سالوں میں لوگ اس کے پاس صلاح مشورے کے لیے دور دور سے ملاقات کے لئے حاضر ہو جاتے تھے.
اس فانی دنیا سے رخصت ہونے سے تقریباً ٦ مہینے پہلے ھم سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ١٩٢٨ میں اپنے آبائی گاؤں میں تولد ہوئے تھے ابتدائی تعلیم گھر سے حاصل کرکے باقی اردو، فارسی اور کشمیری زبانوں کی تعلیم نزدیکی اسکول سے حاصل کرکے. اپنے گاؤں کے سب سے پہلا تعلیم یافتہ فرد کا شرف حاصل ہوا. آپ دینی کتابوں کا مطالعہ اکثر کشمیری، اردو اور فارسی زبانوں میں تحریر کی ہوئی تصانیف میں کرتے تھے. آپ ایک اعلیٰ اخلاق، صوم الصلوۃ کے پابند اور خوش خلق انسان تھے. جب بھی ان کے پاس بیٹھنے کا شرف حاصل ہوتا تھا تو ملکی حالات اور لوکل ایڈمنسٹریشن پر ضرور تبصرہ کرتے تھے. اس سے اس بات کا واضح ثبوت مل سکتا ہے کہ آپ اپنے وقت کے اسکالروں میں شمار ہوا کرتے تھے. ان کے پوچھے جانے والے بیشتر سوالات کے جوابات مجھے آج تک بھی نہیں مل رہے ہیں. شاید زندگی کے باقی ماندہ سالوں میں مشاہدہ کے بنیاد پر ان سوالات کے جوابات مل جائے.
تقریباً نصف صدی اس فانی دنیا میں رہنے کے لئے جدوجہد کرتے رہے اور باقی ماندہ سال بلکل اپنے گھر میں ہی گذارے. آپ کی ایک عادت سے میں ذاتی طور پر بہت متاثر تھا. آپ جب بھی کسی فرد یا افراد کے ساتھ مخاطب ہو کر گفتگو شروع کرتے تھے تو اپنے کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ سجی رہنے کے ساتھ اپنے آپ کو پورا اسی فرد کی طرف متوجہ ہو کے بیٹھ جاتے ہیں تاکہ اس کی پوری بات سنی جائے اور اس کی بات پر غور و خوض کرکے اس کو مسکراتے ہوئے اس بات کا جواب دیا جائے. ایسے فرشتہ صفت انسان بہت ہی کم دیکھنے کو ملتے ہیں. آپ زندگی کے آخری سالوں میں ھمیشہ جمعہ المبارک کے بارے میں پوچھا کرتے تھے سبھی رشتہ دار اور گھر کے فرد اس بات کا انہیں جواب تو دے دیتے تھے مگر یہ نہیں پتہ تھا آخر آپ کو جمعہ المبارک کے جانکاری کیوں چاہتے ہیں. اس راز سے اس وقت پردہ اٹھ گیا جب آپ جمعہ المبارک کو ہی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے.
آخر کا اس درویش صفت انسان نے موت کی آغوش میں جاننے سے پہلے کچھ دن کھانا پینا چھوڑ کر بستر پر اپنے آخری وقت کے انتظار میں رہے. اپنے رشتے، ہمسائیگی یا اور کوئی بھی آ جاتا تو سرہانے بیٹھ کر تلاوت قرآن پاک سنانے کے لیے بیٹھ جاتا تھا اور خبر گیری وغیرہ کے بعد رخصت ہو کے چلا جاتا تھا. تب ہی عید الضحٰی کے عرفے کے دن نانا جی کی درد میں شدت محسوس ہوئی اور پورا دن وہاں موجود افراد نے تلاوت قرآن پاک سنانی شروع کر دی. آخر پر عصر نماز کے بعد سورت یاسین کی تلاوت سنتے سنتے آپ خالق حقیقی سے جا ملے..
انا للہ وانا الیہ راجعوں
رب العزت سے دعا ہے کہ مرحوم کی مغفرت فرما کر قبر کی منزل آسان فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین ثم آمین
_____________________________________________
ENGLISH TRANSLATION
The late Khawaja Abdul Subhan Mir was a man of high personality.
Written by Khadim Muhammad Altaf
Precious years of life passed and our own separation from us. One of them, my grandfather, on the day of 'Arafah on the day of Eid al-Adha on Friday, July 31, at about 6 o'clock after Asr prayers, while listening to the recitation of Surah Yaseen, he met his real Creator and gave us the rest of our life in this mortal world. Left alone to spend.
He was a man of high moral character as well as a well-known expert on the principles of landed property. Measuring the earth by foot was one of his hallmarks. How to adopt the principles of landlordism was one of his top priorities. You used to be considered an expert in distributed property on property disputes for the people. Although the art of dividing property is very complex, you always divided it in your own unique way to make both parties happy so that there would be no more fights and quarrels. Patches in the orchards, eyes and other He was also considered an expert in technical work. In the last years of his life, people used to come to him from far and wide for consultation.
Talking to us about 3 months before he left this mortal world, he said that he was born on 1928 in his native village and received his primary education at home and his education in Urdu, Persian and Kashmiri languages at a nearby school. He was the first educated person in his village. He often studied religious books in Kashmiri, Urdu and Persian languages. He was a man of high morals, fasting and cheerful. Whenever he had the privilege of sitting down, he would comment on the situation in the country and the local administration. This can be a clear indication that you used to be one of the scholars of your time. I still can't find the answers to most of their questions. Perhaps the answers to these questions will be found on the basis of observations in the remaining years of life.
Struggled to live in this mortal world for almost half a century and spent the rest of the year at home. I was personally very impressed with one of your habits. Whenever you start a conversation with an individual or people, you always sit with a smile on your face and focus on that person so that the whole thing is heard and that Contemplate this notion as you interact with others. Such angelic human beings are rarely seen. In the last years of your life, you would always ask about Jumu'ah al-Mubarak. All your relatives and family members would answer them, but I did not know why you want to know about Jumu'ah al-Mubarak. This secret was revealed when you met your real creator on Good Friday.
In the end, this dervish person stopped eating and drinking for a few days before realizing that he was in the arms of death and waited for his last time in bed. When his relatives, neighbors or anyone else came, he would sit on his head to recite the Qur'an and after hearing the news, he would leave. Then, on the day of 'Arafah of Eid-ul-Adha, Nanaji's pain became severe and the people present there started reciting the Holy Quran. At the end, after Asr prayers, while listening to the recitation of Surah Yaseen, you go to the real Creator.
Ana Allah Wana Ilya Rajaun
May the Lord of Glory forgive the deceased and make the destination of the grave easy and grant him a high position in Paradise. Amen and Amen.
Comments
Post a Comment