تاریخ کے آئینے میں... اسلام کی تعلیمات

 English Translation By 

Khadim Mohammad Altaf 

When one of the most historically important cities in the world was about to be conquered, the commander of the victorious army asked his ruler to come and take charge of the city, and the same condition was laid down by the ruler of that city  The keys to the city will be given.


 So the ruler announced his arrival and the people were busy preparing for his arrival.


 On the day this ruler was to enter the city, early in the morning the people began to gather outside the city to receive him.  At daybreak, the dust rose and the people felt that the ruler's ride had come.  When the dust cleared, he saw a camel holding the reins of a camel while another man was riding on the camel.  There were fourteen patches on the pedestrian's body, his feet were addicted to bile in the mud, he was holding shoes in one hand and was pulling the camel with the other hand.


 When the commander saw them, he shouted, "O people of Jerusalem, get ready, our ruler Umar Farooq has arrived."


 The people of Jerusalem were aware of the pomp of the Roman rulers. This scene was unbelievable to them. They asked, "Is Omar the one who rides a camel?"  Got the answer, no, there is a servant riding a camel, Omar is the one who is walking.  ۔  ۔


 There was a commotion among the people. The commander took out a valuable garment from his luggage and ran to Omar on horseback and told him to put on this garment so that the people of the city would be terrified.  Omar replied that the standard of honor is not in the dress but in obedience to Allah.


 When they entered the city, the people asked why the slave was riding on a camel.

 The answer was that the journey was long, we had some bags of luggage which contained satu, water and dates, the camel was one and the passenger could sit two and only one at a time with the luggage.  It was decided that one destination would be a passenger camel ride and the other destination would be another passenger.  Coincidentally, when it was time to enter Jerusalem, it was the slave's turn to ride the camel. He also said that he would walk, but my conscience did not allow it.

 

 Yes, it was Hazrat Umar (RA) who ruled over an area of ​​2.2 million square miles.  ۔  ۔


 These were the Companions who were trained by the Holy Prophet himself.  Even if this world is created seven times, it will not be able to produce a single ruler like Umar because Umar had the guidance of Allah and the training of the Prophet.  ۔  ۔


 All the Companions of the Prophet, the Righteous Caliphs and the Mothers of the Faithful are the crown of our heads and the shining stars of guidance.  May Allah Almighty help us to follow in their footsteps. ”Amen



___________________________________________

Urdu Article By 

Altaf Jameel Nadvi 


تاریخی اعتبار سے دنیا کا ایک اہم ترین شہر جب فتح ہونے جارہا تھا تو فاتح فوج کے سپہ سالار نے اپنے حاکم سے کہا کہ آپ آئیں اور شہر کا چارج سنبھالیں اور یہی شرط اس شہر کے حاکم نے بھی رکھی تھی کہ حاکم آئے گا تو اسے ہی شہر کی کنجیاں دی جائیں گی۔


چنانچہ حاکم نے آنے کی اطلاع کردی اور لوگ اس کی آمد کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے۔


جس دن اس حاکم نے شہر میں داخل ہونا تھا، اس دن صبح سویرے لوگ اس کے استقبال کیلئے شہر کے باہر جمع ہونا شروع ہوگئے۔ دن چڑھے دور گرد کا غبار اٹھا تو لوگوں کو لگا کہ حاکم کی سواری آگئی۔ جب غبار چھٹی تو دیکھا ایک اونٹنی کی مہار تھامے ایک شخص پیدل چلا آرہا ہے جبکہ دوسرا شخص اس اونٹنی پر سوار ہے۔ پیدل چلنے والے کے جسم پر جو پوشاک تھی اس پر چودہ پیوند لگے تھے، پاؤں کیچڑ میں لت پت ہونے کی وجہ سے جوتے ہاتھ میں پکڑ رکھے تھے اور دوسرے ہاتھ سے اونٹنی کو کھینچتا آرہا تھا۔


سپہ سالار نے جب انہیں دیکھا تو پکار اٹھا، اے بیت المقدس والو، تیار ہوجاؤ، ہمارا حاکم عمرفاروق آن پہنچا۔


بیت المقدس والے رومی حکمرانوں کے ٹھاٹھ سے واقف تھے، یہ منظر ان کیلئے ناقابل یقین تھا، پوچھا کہ عمر وہ ہے جو اونٹنی پر سوار ہے؟ جواب ملا، نہیں، اونٹنی پر سوار تو کوئی خادم ہے، عمر وہ ہے جو پیدل چلا آرہا ہے ۔ ۔ ۔


لوگوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں، سپہ سالار نے اپنے سامان سے قیمتی پوشاک نکالی اور گھوڑا دوڑا کر عمر کے پاس پہنچا اور کہا کہ آپ یہ پوشاک پہن لیں تاکہ شہر والوں پر رعب پڑ سکے۔ عمر نے جواب دیا کہ عزت کا معیار اس پوشاک میں نہیں بلکہ اللہ کی فرمانبرداری میں ہے۔


جب وہ شہر میں داخل ہوئے تو لوگوں نے پوچھا کہ غلام اونٹنی پر سوار کیوں تھا؟ 

جواب ملا کہ سفر طویل تھا، ہمارے پاس سامان کے کچھ تھیلے تھے جن میں ستو، پانی اور کھجوریں تھیں، اونٹنی ایک تھی اور مسافر دو اور ایک وقت میں سامان کے ساتھ صرف ایک ہی بیٹھ سکتا تھا۔ طے ہوا کہ ایک منزل ایک مسافر اونٹنی پر سوار ہوگا اور دوسری منزل دوسرا مسافر۔ اتفاق یہ ہوا کہ جب بیت المقدس داخل ہونے لگے تو اونٹنی پر سوار ہونے کی باری غلام کی تھی، اس نے کہا بھی کہ وہ پیدل چل لے گا لیکن میرے ضمیر نے گوارا نہ کیا۔

 

جی ہاں، یہ تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو بائیس لاکھ مربع میل پر پھیلے رقبے کے حکمران تھے ۔ ۔ ۔ 


یہ تھے وہ صحابہ کہ جن کی تربیت خود نبی پاک ﷺ نے خود کی تھی۔ یہ دنیا اگر سات مرتبہ بھی بنائی جائے تو عمر جیسا ایک بھی حکمران پیدا نہ کرسکے گی کیونکہ عمر کے پاس اللہ کی ہدایت اور نبی ﷺ کی ٹریننگ تھی ۔ ۔ ۔


نبی ﷺ کے تمام صحابہ، خلفائے راشدین اور امہات المومنین ہمارے سر کے تاج اور رہنمائی کے روشن ستارے ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں ان کے نقش پا پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔“  آمین 

الطاف جمیل ندوی



 

Comments