شہید محراب نبوی رضی اللہ تعالی
یکم محرم کے آتے ہی عالم اسلام میں جہاں خوشیوں اور مسرتوں کے پیغامات کے تبادلے ہوتے ہیں وہیں اس ماہ سے عالم اسلام میں ہونے والے کچھ دلخراش واقعات سانحات کی چبھن اب بھی دلوں کو چھلنی کردیتے ہیں
جیسے کہ شہادت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی اور خاندان نبوی علیہ السلام پر ٹوٹنے والی قیامت جس نے امت مسلمہ کو تباہ و برباد کرنے میں سنگ بنیاد کا کام کیا پہلی شہادت یکم محرم کو ہی پیش آئی فاروق اعظم رضی اللہ تعالی کی جو دنیا کے پہلے خلیفہ اسلام ہیں جو ایک دہشت گرد کے ہاتھوں شھید کئے گئے تو سمجھا جاسکتا ہے کہ سب سے اول امت مسلمہ ہی اس دہشت گردی کا شکار ہوئی ہے
فاروق اعظم رضی تعالی
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نبوت کے چھٹے سال۔ جب کہ آپ کی عمر 33 سال تھی دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ چھ سال آپ نے اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں کوئی کسر نہ اٹھا سکی۔ جب آپ نے اسلام قبول کر لیا تو نہ صرف وہ کمی پوری کر دی ، بلکہ اسلام کی اتنی خدمت کی کہ کوئی دوسرا اتنی خدمت نہ کر سکا۔
دور جاہلیت میں آپ سفارت کے عہدہ پر مامور تھے اور کفار کے باہمی جھگڑوں میں ثالث ہوا کرتے تھے اور آپ کا ذریعہ معاش تجارت تھا۔ تجارت میں اتنی ترقی کی تھی کہ شاہان روم و فارس کے درباروں تک بارسوخ ہو گئے تھے
فضائل و مناقب
کان بعدی نبی لکان عمر بن الخطاب ۔
ترجمہ :۔ میرے بعد اگر نبی ہوتے تو عمر ہوتے۔ (مشکوٰۃ شریف ص558 )
مذکورہ حدیث سے حضرت عمر فاروق کے مرتبے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر حضور پر نبوت ختم نہ ہوتی تو آپ کے بعد حضرت عمر فاروق نبی ہوتے۔ حضور اکرم نے ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا۔
بے شک میں نگاہ نبوت سے دیکھ رہا ہوں کہ جن کے شیطان اور انسان کے شیطان دونوں میرے عمر کے خوف سے بھاگتے ہیں۔ (مشکوٰۃ شریف ص558 )
ترمذی شریف کی حدیث میں ہے کہ پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد نے ارشاد فرمایا “اللہ تعالٰی نے عمر کی زبان اور قلب پر حق کو جاری فرما دیا۔ (بحوالہ مشکوٰۃ صفحہ557)
معلوم ہوا کہ سیدنا حضرت عمر فاروق ہمیشہ حق کہنے والے ہیں۔ ان کی زبان اور قلب پر کبھی باطل جاری نہیں ہوگا۔ اور یہ معلوم ہوا کہ سیدنا حضرت عمر فاروق کے خوف اور دبدبے سے شیطان اور ان کے آلہ کار بھاگتے ہیں۔
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ “جب حضرت عمر فاروق اسلام لائے تو حضرت جبرائیل حضور کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ آسمان والے عمر کے اسلام پر خوش ہوئے ہیں۔ (ملاحظہ ہو ابن ماجہ بحوالہ برکات آل رسول صفحہ 291)
سیدنا حضرت عمر فاروق کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید کی بہت سی آیتیں آپ کی خواہش کے مطابق نازل ہوئیں۔ سیدنا حضرت علی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق کے رائیں قرآن مجید میں موجود ہیں۔
تاریخ خلفاء میں ہے کہ حضرت عمر فاروق کسی معاملہ میں کوئی مشورہ دیتے تو قرآن مجید کی آیتیں آپ کے مشورے کے مطابق نازل ہوتیں۔ (تاریخ الخلفاء)
مسلمانو ! سیدنا حضرت عمر کے مشوروں کو اللہ تعالٰی کس طرح پسند فرماتا تھا اس کا اندازہ اس طرح لگائیے۔
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق نے حضور اکرم سے عرض کی یارسول اللہ ! آپ کی خدمت میں ہر طرح کے لوگ آتے جاتے ہیں اور اس وقت آپ کی خدمت میں آپ کی ازواج بھی ہوتی ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ آپ ان کو پردہ کرنے کا حکم دیں چنانچہ حضرت عمر کے اس طرح عرض کرنے پر ازواجِ مطہرات کے پردے کے بارے میں قرآن مجید کی آیت نازل ہوئی۔ ارشاد خداوندی ہے۔
واذا سالتموھن متاعا فسلوھن من ورآء حجاب (پ22 ع4)
ترجمہ :۔ اور جب تم امہات المومنین سے استمعال کرنے کی کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو۔
ایک مرتبہ ایک یہودی حضرت عمر فاروق کے پاس آ کر کہنے لگا کہ تمہارے نبی جس جبرائیل فرشتہ کا تذکرہ کرتے ہیں وہ ہمارا سخت دشمن ہے۔ حضرت عمر فاروق نے اس کو جواب دیا۔
من کان عدواللہ وملکتہ ورسلہ وجبریل ومیکال فان اللہ عدو للکفرین ہ
ترجمہ :۔ جو کوئی دشمن ہو اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبرئیل اور میکائیل کا تو اللہ دشمن ہے کافروں کا۔
جن الفاظ کے ساتھ سیدنا حضرت عمر فاروق نے یہودی کو جواب دیا بالکل انہی الفاظ کے ساتھ اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں آیت کریمہ نازل فرمائی۔ (پ1 ع12)
ان واقعات سے حضرت عمر فاروق کی شان و عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آپ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں اس قدر محبوب تھے کہ آپ کے خیال کے مطابق قرآن مجید کی کئی آیتیں نازل ہوئیں۔
حضرت عمر فاروق نے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں یہ دعاء کی
یارب مجھے اپنی راہ میں شہادت عطا فرما اور اپنے رسول کے شہر میں مجھے موت عطا فرما۔ (بخاری شریف بحوالہ تاریخ الخفاء
سادگی
آپ کی زندگی اتنی سادہ اور بے تکلف تھی کہ شاید ہی دنیا کا کوئی حکمران اس کی مثال پیش کر سکے۔ لباس کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ دوسرے ممالک کا دورہ کرتے ہوئے قمیص پر 17 , 17 پیوند لگے ہوئے ہیں ، مگر اس کی پرواہ نہیں۔ خوراک بہت سادہ خشک روٹی اور زیتون کا تیل استعمال کرتے تھے اور تکلف کا نام نہیں ، چلتے چلتے کوئی بڑھیا عورت راستہ روک لیتی ہے اور اپنا کیس پیش کر دیتی ہے تو سننے کے لئے مستعد ہو جاتے ہیں۔
ایک دفعہ آپ خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ جو چادر اوڑھے ہوئے تھے اسے بارہ پیوند لگے ہوئے تھے۔ ایک دفعہ جمعہ کی نماز پڑھانی تھی آپ کو تھوڑی سی دیر ہو گئی تو سب سے معافی مانگی۔ فرمایا :
میں نے کپڑے دھو کر سکھانے کو ڈالے۔ جلد نہ سوکھ سکے۔ اور کپڑے ہی نہیں تھے جو پہن کر آ جاتا
ایک دن کھانا کھانے لگے۔ ایک آدمی ملاقات کے لیے آ گیا۔ آپ نے اسے بھی ساتھ بٹھا لیا۔ موٹے آٹے کی خشک روٹی تھی اور آتا چھانا بھی نہیں تھا۔ سالن کی بجائے زیتون کا تیل تھا۔ وہ آدمی ساتھ تو بیٹھ گیا لیکن لقمہ حلق سے نیچے نہیں اترتا تھا۔ آخر بولا :
آٹا چھان نہ لیا ؟” حضرت عمر نے فرمایا :
سب مسلمان چھانے ہوئے آٹے کی روٹی کھاتے ہیں
اس نے کہا : نہیں
آپ نے فرمایا :
کیا تو یہ چاہتا ہے کہ میں سارے مزے دنیا میں ہی لے لوں اور اخرت کے لیے کچھ باقی نہ چھوڑوں ؟”
جس خلیفہ کے سر پر بارہ پیوندوں والی چادر تھی جس کا گزارہ موٹے آٹے کی سوکھی ہوئی روٹی پر تھا۔ اس کی فوجیں ایران ، روم اور مصر کی سلطنتوں کی عزت کو خاک میں ملا چکی تھیں اور جن بادشاہوں نے صدیوں میں جو دولت جمع کی ہوئی تھی وہ آج مدینۃ الرسول کی گلیوں میں رُل رہی تھی
فاتح
تاریخی اعتبار سے دنیا کا ایک اہم ترین شہر جب فتح ہونے جارہا تھا تو فاتح فوج کے سپہ سالار نے اپنے حاکم سے کہا کہ آپ آئیں اور شہر کا چارج سنبھالیں اور یہی شرط اس شہر کے حاکم نے بھی رکھی تھی کہ حاکم آئے گا تو اسے ہی شہر کی کنجیاں دی جائیں گی۔
چنانچہ حاکم نے آنے کی اطلاع کردی اور لوگ اس کی آمد کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے۔
جس دن اس حاکم نے شہر میں داخل ہونا تھا، اس دن صبح سویرے لوگ اس کے استقبال کیلئے شہر کے باہر جمع ہونا شروع ہوگئے۔ دن چڑھے دور گرد کا غبار اٹھا تو لوگوں کو لگا کہ حاکم کی سواری آگئی۔ جب غبار چھٹی تو دیکھا ایک اونٹنی کی مہار تھامے ایک شخص پیدل چلا آرہا ہے جبکہ دوسرا شخص اس اونٹنی پر سوار ہے۔ پیدل چلنے والے کے جسم پر جو پوشاک تھی اس پر چودہ پیوند لگے تھے، پاؤں کیچڑ میں لت پت ہونے کی وجہ سے جوتے ہاتھ میں پکڑ رکھے تھے اور دوسرے ہاتھ سے اونٹنی کو کھینچتا آرہا تھا۔
سپہ سالار نے جب انہیں دیکھا تو پکار اٹھا، اے بیت المقدس والو، تیار ہوجاؤ، ہمارا حاکم عمرفاروق آن پہنچا۔
بیت المقدس والے رومی حکمرانوں کے ٹھاٹھ سے واقف تھے، یہ منظر ان کیلئے ناقابل یقین تھا، پوچھا کہ عمر وہ ہے جو اونٹنی پر سوار ہے؟ جواب ملا، نہیں، اونٹنی پر سوار تو کوئی خادم ہے، عمر وہ ہے جو پیدل چلا آرہا ہے ۔ ۔ ۔
لوگوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں، سپہ سالار نے اپنے سامان سے قیمتی پوشاک نکالی اور گھوڑا دوڑا کر عمر کے پاس پہنچا اور کہا کہ آپ یہ پوشاک پہن لیں تاکہ شہر والوں پر رعب پڑ سکے۔ عمر نے جواب دیا کہ عزت کا معیار اس پوشاک میں نہیں بلکہ اللہ کی فرمانبرداری میں ہے۔
جب وہ شہر میں داخل ہوئے تو لوگوں نے پوچھا کہ غلام اونٹنی پر سوار کیوں تھا؟
جواب ملا کہ سفر طویل تھا، ہمارے پاس سامان کے کچھ تھیلے تھے جن میں ستو، پانی اور کھجوریں تھیں، اونٹنی ایک تھی اور مسافر دو اور ایک وقت میں سامان کے ساتھ صرف ایک ہی بیٹھ سکتا تھا۔ طے ہوا کہ ایک منزل ایک مسافر اونٹنی پر سوار ہوگا اور دوسری منزل دوسرا مسافر۔ اتفاق یہ ہوا کہ جب بیت المقدس داخل ہونے لگے تو اونٹنی پر سوار ہونے کی باری غلام کی تھی، اس نے کہا بھی کہ وہ پیدل چل لے گا لیکن میرے ضمیر نے گوارا نہ کیا۔
جی ہاں، یہ تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو بائیس لاکھ مربع میل پر پھیلے رقبے کے حکمران تھے ۔ ۔ ۔
یہ تھے وہ صحابہ کہ جن کی تربیت خود نبی پاک ﷺ نے خود کی تھی۔ یہ دنیا اگر سات مرتبہ بھی بنائی جائے تو عمر جیسا ایک بھی حکمران پیدا نہ کرسکے گی کیونکہ عمر کے پاس اللہ کی ہدایت اور نبی ﷺ کی تربیت تھی
ان کی عظمت کا رعب
مگر بایں رعب کا یہ عالم تھا کہ دشمن آپ کا نام سن کر کانپ جاتا تھا۔ فتوحات کا یہ عالم تھا کہ ملک پر ملک فتح ہوتے جا رہے ہیں ، یہاں تک کہ عیسائی مورخین کو یہ لکھنا پڑا کہ :
” اگر مسلمانوں میں ایک اور عمر پیدا ہو جاتا تو تمام میں اسلام اور اسلامی حکومت پھیل جاتی ، اور کوئی غیر مسلم نظر نہ آتا۔ “
شہادت کی خوشخبری
آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرما چکے تھے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ :
” ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احد پہاڑ پر تشریف لے گئے۔ آپ کے ہمراہ حضرت ابوبکر صدیق ، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے کہ احد پہاڑ لرزنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑ کو مخاطب کر کے فرمایا : ٹھہر جا تجھ پر ایک نبی ، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔
کارہائے نمایاں
عمر بن خطاب ہجری تقویم کے بانی ہیں، ان کے دور خلافت میں عراق، مصر، لیبیا، سرزمین شام، ایران، خراسان، مشرقی اناطولیہ، جنوبی آرمینیا اور سجستان فتح ہو کر مملکت اسلامی میں شامل ہوئے اور اس کا رقبہ بائیس لاکھ اکاون ہزار اور تیس (22,51,030) مربع میل پر پھیل گیا۔ عمر بن خطاب ہی کے دور خلافت میں پہلی مرتبہ یروشلم فتح ہوا، اس طرح ساسانی سلطنت کا مکمل رقبہ اور بازنطینی سلطنت کا تقریباً تہائی حصہ اسلامی سلطنت کے زیر نگین آ گیا عمر بن خطاب نے جس مہارت، شجاعت اور عسکری صلاحیت سے ساسانی سلطنت کی مکمل شہنشاہیت کو دو سال سے بھی کم عرصہ میں زیر کر لیا، نیز اپنی سلطنت و حدود سلطنت کا انتظام، رعایا کی جملہ ضروریات کی نگہداشت اور دیگر امور سلطنت کو جس خوش اسلوبی اور مہارت و ذمہ داری کے ساتھ نبھایا وہ ان کی عبقریت کی دلیل ہے
آمد قاتل
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قول تھا کہ وہ کسی بالغ ذمی (جزیہ ادا کرنے والے غیر مسلم) کو مدینہ منورہ میں آنے کی اجازت نہیں دیا کرتے تھے۔ مگر حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ جو کوفہ کے گورنر تھے۔ انہوں نے اپنے ایک کاریگر مجوسی غلام (جس کا نام فیروز اور کنیت ابولولو تھی) مدینہ منورہ میں آنے اور رہنے کی اجازت طلب کی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی اجازت دے دی۔
ابو لولوفیروز ایک دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے شکایت کی ، کہ میرے آقا مغیرہ بن شعبہ نے میرے اوپر بہت بھاری ٹیکس مقرر کیا ہے۔ آپ اس میں کمی کرا دیجئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کتنا ٹیکس ہے۔ اس نے کہا : دو درہم روزانہ (تقریبا 44 پیسے) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا تم کون سا کام جانتے ہو۔ فیروز نے جواب دیا۔ نجاری ، نقاشی اور آہنگری کا۔
آپ نے فرمایا کہ ان صنعتوں کے مقابلہ میں یہ رقم کچھ زیادہ نہیں ہے۔ فیروز دل میں سخت ناراض ہو کر چلا گیا
واقعہ شہادت
26 ذی الحجہ 23 ھ کی صبح کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نماز فجر پڑھانے کے لئے مسجد نبوی میں تشریف لائے۔ فیروز گھات لگائے کھڑا تھا۔ اور مسجد میں بالکل اندھیرا تھا۔ جب آپ نے تکبیر تحریمہ کہی تو فیروز نے آپ پر حملہ کردیا اور چھ وار کئے۔ جس سے آپ رضی اللہ عنہ زخمی ہو کر زمین پر گر پڑے۔ حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے مختصر نماز پڑھائی۔ فیروز نے اور لوگوں کو بھی زخمی کیا آخر پکڑ لیا گیا اور اس دوران اس نے خود کشی کر لی اور جہنم واصل ہوا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو زخمی حالت میں گھر لایا گیا۔ آپ نے پوچھا کہ کس نے مجھ پر حملہ کیا ہے۔ لوگوں نے بتایا ابولولوفیروز نے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
الحمد للہ کہ میں ایسے شخص کے ہاتھ سے شہید نہیں کیا گیا جو اسلام کا دعویٰ رکھتا تھا۔ اس کے بعد طبیب کو بلایا گیا۔ اس نے نبیذ اور دودھ پلایا۔ دونوں چیزیں زخم کی راہ باہر نکل آئیں۔ اس وقت لوگوں کو یقین ہو گیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس زخم سے جانبر نہیں ہو سکتے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے فرزند ارجمند حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور کہا کہ :
” ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور ان کی خدمت میں سلام پیش کرو۔ اور میری طرف سے عرض کرو کہ عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن ہونے کی اجازت طلب کرتا ہے۔ حضرت عبداللہ حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وہ رو رہی تھیں حضرت عبداللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا سلام کہا اور پیغام پہنچایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس جگہ کو میں اپنے لئے محفوظ رکھنا چاہتی تھی لیکن آج میں اپنے اوپر عمر رضی اللہ عنہ کو ترجیح دوں گی۔
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ واپس آئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا خبر لائے ہو۔ انہوں نے کہا جو آپ چاہتے تھے فرمایا کہ :
یہی سب سے بڑی آرزو تھی اس کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جب میری روح قبض ہو جائے۔ تو میر نعش چارپائی پر لے جانا۔ اور دروازہ پر ٹھہر جانا۔ اور پھر اجازت مانگنا اگر وہ واپس کر دیں تو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا۔ کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں میری حاکمانہ حیثیت کے پیش نظر اجازت دے دی ہو۔ بہرحال جب نعش لے جائی گئی۔ تو سب مسلمان اس درجہ متاثر اور غم زدہ تھے کہ جیسے اس سے پہلے کوئی مصیبت نہ پڑی ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دوبارہ اجازت دے دی۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی آخر آرام گاہ پہنچ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اعزاز بخشا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں دائمی آرام گاہ پائی۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ 26 ذی الحجہ 23 ھ کو زخمی ہوئے تین دن بعد یکم محرم 24 ھ کو انتقال کیا۔ حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ حضرت علی بن ابی طالب ، حضرت عبدالرحمان بن عوف ، حضرت عثمان بن عفان ، حضرت طلحہ بن عبیداللہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم اجمیعن نے قبر میں اتارا۔ اور وہ آفتاب عالمتاب خاک میں چھپ گیا۔ وفات کے وقت عمر 63 سال تھی
یوں اک باب عظمت کا خاتمہ ہوا اور امت مسلمہ تب سے اب تک اسی دہشت گردی کی شکار چلی آرہی ہے اور ہزار جتن کرکے بھی سنبھل نہیں پارہی ہے
الطاف جمیل ندوی
Comments
Post a Comment