اردو
زبان جو مٹھاس سے بھر پور ہے
یہ اس صدی کی بات نہیں
پرانے زمانے کی اک یاد ہے جو وارث ہے جو امین ہے کشمیر کے تہذیب و تمدن کی کشمیر کے ماضی و حال کی جو مستقبل میں رہنما بن پائے گئی وادی
وادی کشمیر میں مستقل طور پر گر چہ یہ سرکاری زبان کہلاتی رہی پر وہ لمحہ قابل دید ہوتا تھا جب سرکار کے ہی کارندے اس زبان کا گلہ گھونٹ دیتے تھے جب دفتر کی جگہ آفس بنا جب جناب کی جگہ سر ہوا جب پیارے کی جگہ ڈئر آیا جب امی کی جگہ موم آیا جب ابا کا ڈیڈی ہوا جب کھاتہ کا اکاونٹ بنا جب کتاب بک بنی جب قلم پئن بنا جب معافی کے بدلے سوری بنا تب ہی ہمیں جان لینا چاہئے تھا کہ اردو زبان ہم برباد کرنے جارہے ہیں اور عنقریب ہم اپنا تمام ورثہ کھو دیں گئے
تہذیب و تمدن کی امین ہے یہ زبان مذہب و مسلک سے اوپر اٹھ کر بحیثیت کشمیری کے سوچیں کل پرسوں گر ہم جینٹل میں بھی بن گئے تب بھی گر کبھی ہمیں یہ احساس ہوا کہ اپنی وادی کے بارے میں جانکاری حاصل کریں تو یقین کریں کہ منہ کی کھانی پڑے گی کیونکہ جس زبان کا گلہ گھونٹا جارہا ہے وہ امین ہے ہماری تہذیب و ثقافت کی اسی زبان میں ہماری تاریخی آثار لکھے گئے ہیں کیوں کہ یہ جو جینٹل مین بنئے ہوئے ہیں انہیں کوئی خاص توفیق ابھی ملی نہیں کہ اپنی تہذیب و ثقافت کو انگریزی یا ہندی یا کسی اور زبان میں محفوظ کرلیتے تو سوچئے جس قوم کا ماضی کھو جائے وہ بربادی و تباہی کے مناظر کے سوا کیا پا سکتی ہے مستقبل میں جس کا ماضی اندھیروں میں گم ہوجائے وہ اپنا ماضی کہاں ڈھونڈ پائے گئی مطلب مصائب و مشکلات ہی مقدر بن جائیں گئے کیونکہ جس قوم کا ماضی بھی اندھیروں میں کھو جاتا ہے وہ زندہ تو رہتی ہے پر زندگی کے آثار اس میں نہیں پائے جاتے دوسری زبانوں میں اپنا ماضی تبدیل کرتے کرتے یقین کریں ہماری دو چار نسلیں تو لٹ ہی جائیں گئیں
اہل ایمان سوچیں
قرآن مجید احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سیرت تاریخ اسلامی تہذیب و ثقافت کی ہزاروں کتابیں ایک دم سے ختم ہوجائیں گئیں جب یہ زبان مٹ جائے گی ویسے بھی اب ہم مطالعہ کتب سے پہلے ہی خالی ہاتھ و تہی دست ہیں پر امید کی رمق بنی ہوئی تھی کہ دیر سویر ہم اس زبان کے سہارے ہی اپنی تہذیب و ثقافت جو کہ اسلامی شعائر پر مبنی ہے سے جڑ جائیں گئے پر اب تو شاید یہ بھی نصیب میں نہیں رہنے والی ہے تو سوچیں کیا ہماری حالت اس ننگ ڈڑنگ انسان جیسی نہیں ہوگئی جس کا لباس اچانک ہی اس کے جسم سے غائب ہوجائے کیونکہ جب یہ ہزاروں کتب اسلامی ہی ختم ہوجائیں گئیں تو ہم بھلا کیسے اسلام سے جڑے رہیں گئے کیونکہ اہل وادی کی اکثریت عربی فارسی و انگریزی زبانوں سے نابلد و نا آشنا ہے تو بھلا جس زبان کے سہارے وہ کم یا زیادہ اپنے دین سے جڑے ہوئے ہیں وہ ختم ہوجائے تو کہاں جائیں گئے اور مصیبت یہ بھی ہے کہ اتنا بڑا علمی ادبی ثقافتی ذخیرہ کیسے بقیہ زبانون میں منتقل کیا جائے گا یہ کوئی آسان کام نہیں ہے بلکہ یہ تو جوئے شئیر لانے جیسا معاملہ ہے
اپیل
آئے رب الکریم کے پیارے بندو میرے عزیزو خدارا سمجھ جاؤ یہ زبان کا نہیں بلکہ ہم سب کا جنازہ اٹھایا جارہا ہے اس لئے جان جاؤ کہ اس زبان کا تحفظ اس کی ترویج و اشاعت ہمارے لئے عبادت کا درجہ رکھتا ہے جہاں تک ہوسکے اس کا تحفظ کیا جائے یہ ہمارے لئے فریضہ ہے نہیں تو
کبھی تمہاری داستان تک نہ سنائی دے گئی کہ اک قوم تھی وہ اپنی زبان کو بچا نہ سکی اور دنیا سے وہ مٹ گئی
فکر و خیال
الطاف جمیل ندوی
Comments
Post a Comment