مجلس نکاح......

 مجلس نکاح


کچھ یوں قبل ایک کال موصول ہوئی جو کہ ہمارے اپنے ہی ایک لخت جگر پیر خالد کی تھی دعا سلام کے بعد فرمایا بھائی آپ ہمارے گھر فلاں تاریخ کو آئیں ہماری بہن کی نکاح خوانی کے لئے 

ہم نے ہاں کردی اور پھر انہوں نے بار بار یاد دلایا کہ آئے گا ضرور 

اتوار ۶ ستمبر کی صبح کو گھر سے نکلا اور منزل کی جانب رواں دواں ہوگیا 

کرؤنا کے چلتے کچھ پابندیاں بھی تھیں پر سفر جاری رہا 

اس دوران ایک مرغ فروش کی دکان کے سامنے ہی کھڑا گاڑی کا انتظار کر رہا تھا اور یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ایک ایسا مرغا بھی جناب نے ذبح کردیا جس کی نصف سے زیادہ جان نکل چکی تھی کیوں کہ اس نے ذرا بھی حرکت نہ کی جب اسے ذبح کیا گیا 

پوچھنے پر جناب نے کہا کہ مرنے سے بہتر ہے کہ حلال کرلیا اور میرا نقصان بھی نہ ہوا اور تیور چڑھا لئے 

پیر خالد نے گاڑی کا انتظام کرلیا اور میں منزل پر پہنچ گیا 

جب خالد صاحب موضع چاٹوسہ رفیع آباد کے گھر میں داخل ہوا تو اچانک سے اپنے بچپن کے دن یاد آگئے جب میں اسی گھر کے آس پاس شرارتین کیا کرتا تھا کیوں کہ یہ میرے ماما ہیں یہاں پانچ گھروں میں سب سے رشتہ ہے ایک گھر میں میری پھوپھی بھی تھی جس کا کچھ سال قبل انتقال ہوا ہے انتہائی پاکباز نیک سیرت خاتون تھی 

اب شادی کا ماحول قابل دید تھا 

نہ کوئی شور مچا ہے نہ کوئی ہنگامہ آرائی سب اسی انتظار میں کہ کب دلہا آجائے اسی کی تیاری ہورہی ہے

میں نے باپ اور بیٹی کو روتے ہوئے دیکھا 

ہمارے پیارے ماما جان پیر عبد الحمید اپنی بیٹی سے اجازت مانگ رہے ہیں اور عجیب بات یہ تھی کہ دونوں باپ بیٹی آنسو بہا رہے ہیں بیٹیاں کتنی پیاری ہوتی ہیں انہیں باپ کے سوا کوئی اپنا لگتا ہی نہیں اور باپ بھی کتنا پیارا ہے کہ دنیا کی سب سے پیاری شہزادی اسے اپنی بیٹی لگتی ہے اس بات سے مجھے جہاں یہ خوشی ہوئی کہ انہیں آپس میں اس قدر انسیت ہے وہیں یہ قلق بھی ہوا کہ والد کے لئے یہ کتنا کربناک پوتا ہے کہ بیٹی کو پال کر اسے اپنی نظروں سے دور صرف اس لئے کردیتا ہے کہ یہ حکم الہی ہے 

تھوڑی ہی دیر بعد دلہے جناب پیرزادہ مدثر احمد بچر وارہ سے تشریف لے آئے اپنے کچھ باراتیوں کے ساتھ جوکہ کمپیوٹر انجینئر ہیں 

ایک شخص جو کہ بزرگ ہیں کے کہنے پر نکاح کے بارے میں کچھ گزارشات کی جسے سن کر سب نے محبت و مسرت کا اظہار کیا کہ بہتر ہے ایسے ہی نکاح خوانی کی جائے جس میں لڑکے کو یاد دہانی کرائی جائے کہ نکاح کی اصل کیا ہے اور نکاح کے بعد کیا کیا زمہداریاں ہوتی ہیں جنہیں پورا کرنا ہی روح نکاح ہے کچھ گزارشات جو بیان کی ہوں تھیں 

چند گزارشات 

اسلام دراصل اللہ کی مکمل اطاعت کا نام ہے۔ اسلامی شرعیت کا مقصد انسان کی فلاح وبہبود ہے۔ وہ زندگی کے تمام امور ومسائل میں رہنمائی کرکے انسان کو شریعت اسلامی کا پابند بنانا چاہتی ہے۔ زیر نظر مضمون میں شادی بیاہ کے مسائل پر روشنی ڈالی جارہی ہے تاکہ غیراسلامی اور جاہلانہ رسوم ورواج سے بچا جاسکے۔ شادی بیاہ میں رشتہ کا انتخاب بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں شریعت کی کیا رہنمائی ہے؟

رشتوں کا معیار

 نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:”عورتوں سے چار باتوں کے پیش نظر نکاح کیا جاسکتا ہے۔ اس کے مال کے پیش نظر، اس کے حسب (خاندان) کے باعث، اس کے حسن کی خاطر اور دینداری کے باعث۔ تیرے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں (یہ جملہ کبھی تعجب اور کبھی تنبیہ وغیرہ کے لئے بولا جاتا ہے) تجھے تو دین دار عورت حاصل کرنا چاہئے“(بخاری)


دوسری جگہ ارشاد ہے:

 تم ان سے دین کی بنیادپر شادی کرو۔ کیونکہ ایک کالی کلوٹی کم عقل والی لونڈی بھی اگر دین دار ہو تو وہ دوسری عورتوں سے افضل ہے۔ (حدیث)

مزید ایک جگہ فرمایا:

دنیا کی حیثیت ایک متاع ہے اور متاع دنیا میں بہترین چیز نیک عورت ہے۔“(بہ روایت عبداللہ بن عمررضى الله تعالى عنه، مسلم)

دراصل دین کا علم اور اس پر عمل بہت بڑی دولت ہے۔ زندگی کو پرلطف و پرسکون بنانے اور اطمینانِ قلب حاصل کرنے کے لئے دین داری ہی بہتر اور ضروری ہے۔


نکاح کی اہمیت

 حضرت ابوایوب انصاری رضى الله عنه سے روایت ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:”جس شخص نے میری سنت کو راہِ زندگی بنالیا پس وہ مجھ سے ہے اور میری سنت نکاح ہے۔“(حدیث)

جلدی کرو

حضور صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:”اے علی رضى الله عنه! تین کام ہیں جن میں جلدی کرنا چاہئے۔ ایک نماز جب اس کا وقت آجائے۔ دوسرے جنازہ جب کہ وہ تیار ہوجائے۔ تیسرے بن بیاہی عورت کا نکاح جب کہ اس کا مناسب رشتہ مل جائے۔“ (ترمذی۔ حاکم)

نبی صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے کہ مہروں میں حد سے نہ بڑھو“(حدیث)

مطلب یہ ہے کہ مہر کو مرد کی حیثیت کے مطابق ہونا چاہئے۔ محض نام ونمود کے لئے بڑی بڑی رقمیں طے کرلی جاتی ہیں۔ اگر یہ نقد ادا کردی جائے تو افضل ہے اور اگرادھار ہے اور نیت دینے کی نہ ہوتو دونوں صورتوں میں وہ گنہگار ہوگا۔ جیساکہ آگے آرہا ہے۔


مہر کی سلسلے میں اللہ اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم نے کوئی آخری حد مقرر نہیں کی ہے۔ حضرت عمر رضى الله عنه اپنے دورِ حکومت میں ۴۰ اوقیہ چاندی (تقریباً ۴۵۰ تولہ چاندی) کی حد مقرر کرنا چاہتے تھے کہ اس سے زائد کوئی مہر طے نہ کرے لیکن اس نشست میں ایک عورت نے حضرت عمر رضى الله عنه کو ٹوک دیا اور کہا کہ اللہ کی تعلیمات کے خلاف فیصلہ کرنے کا آپ کو یہ حق کس نے دیا ہے؟ جب کہ اللہ کا ارشاد ہے:


*”عورتوں کو اگر تم نے ڈھیرسا مال بھی دیا ہوتو اس میں سے کچھ واپس نہ لو“(سورہ نساء)


اس دلیل کو سن کر حضرت عمر نے فرمایا: ایک عورت نے صحیح بات کہی اور مرد غلطی کرگیا۔


دراصل شریعت نے لوگوں کو افراط و تفریط سے روکا ہے کہ لڑکے کی حیثیت سے کم بھی نہ ہو اور اتنا زیادہ بھی نہ ہو کہ ادائیگی مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجائے۔


مدینہ کے اسلامی معاشرہ میں اس طرح کی بہت ساری مثالیں ملتی ہیں کہ مہر میں کھجور کے باغ وغیرہ بھی دئیے گئے تھے۔ طوالت سے بچنے کے لئے دومثالیں دینے پر اکتفا کرتا ہوں۔


(۱) نبی صلى الله عليه وسلم کے پاس ایک عورت جمیلہ بنت ابّی آئی اور اپنے شوہر کی شکایت کرکے کہا کہ میں علیحدگی چاہتی ہوں۔ حضور صلى الله عليه وسلم نے یہ شکایت سنی اور فرمایا جو باغ تجھ کو اس نے دیا تھا وہ واپس کردے گی؟ اس نے عرض کیا۔ ہاں یارسول اللہ۔

(۲) دوسرا واقعہ حبیبہ بنت سہل کا ہے۔ جب خاتون نے اپنے شوہر کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ جو مال اس نے مجھے دیا ہے میں واپس کرتی ہوں۔ مجھے علیحدگی دلوادیجئے۔

حضور صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے:

جس نے کسی عورت سے نکاح کیا اور نیت یہ رکھی کہ وہ مہر نہیں دے گا وہ زانی ہے“ (حدیث)


جس نے ایک مال مہر کے عوض کسی عورت سے نکاح کیا اور نیت یہ رکھی کہ اس مہر کو ادا نہیں کرے گا۔ وہ دراصل زانی ہے اور جس نے قرض لیا اور نیت یہ رکھی کہ اس قرض کو ادا کرنا نہیں ہے وہ دراصل چور ہے۔ (حدیث)

مندرجہ بالا باتوں سے شریعت میں مہر کی اہمیت، حیثیت اور ضرورت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ عدم ادائیگی کی صورت میں انجام بھی معلوم ہوجاتا ہے اسکے علاوہ بھی کچھ باتیں بیان کی مجھے خوشی ہوئی کہ یہاں جو لوگ تھے دوران خطبہ وہ سب شامل ہوئے اور ایک اچھی خاصی مجلس نکاح کا انعقاد ہوا لوگ انتہائی انہماک سے متوجہ رہے دلہے میاں نے اسی وقت مہر ادا کیا جو کہ ایک بہترین کاوش کہی جاسکتی ہے ورنہ حیلے بہانے تراشے جاتے ہیں اور پھر مہر نہ ادا کرنے کے لئے خواتین کو پریشان کیا جاتا ہے جو کہ بدترین کام ہے 

نکاح ہونے کے بعد جناب دلہا پیر مدثر اپنی شریک حیات کے ساتھ گھر کے لئے روانہ ہوگئے مجھے خوشی ہوئی کہ دلہے کو خواتین نے تنگ نہیں کیا ناچ گانے کے نام پر بلکل انتہائی مہذب انداز سے رخصتی عمل میں لائی گئی اور خواتین جو کہ ایسے مواقع کی تلاش میں رہتی ہیں اور مقامی سطح کی کشمیری شاعری کو ستیاناس کرتے ہوئے اپنے من پسند اشعار گا گا کر جینا دو بھر کردیتی ہیں یہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا بلکہ خواتیں دور ہی رہیں اس وقت 

دعا ہے کہ مولائے کریم اس جوڑی میں خیر و برکت عطا فرمائے 

 الطاف جمیل ندوی




Comments

  1. بہت خوب
    اللہ عمل کرنے کی توفیق عطا کرے

    ReplyDelete

Post a Comment