ایک خواب جو شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا

 دہائیوں پہلے کی بات ہے جب علاقہ ماور کی بولی بالی عوام کو بنگس روڈ کے سنہرے خواب دیکھائے گئے. پر آج تک بیکن روڈ اسے مکمل نہ کر سکے. عوامی حلقوں میں اس بات پر بحث شروع ہوئی ہے کہ اگر بنگس روڈ 66 فٹ چوڑا تیار رکھنا تھا تو پھر اسے تیس سے چالیس فٹ تک محدود کیوں کیا گیا. کیا ایسا کرکے گورنمنٹ سے واگزار کی گئ رقومات ضائع نہیں ہو رہی.. اگر نشاندہی پورے 66 فٹ چوڑائی والے روڈ کی ہوئی تھی پھر آخر اس کو محدود کیوں کیا گیا

عوام جاننا چاہتی ہے کہ ایسا کیوں اور کس کے کہنے پر کیا گیا..لہٰذا ماور کی غیور عوام موجودہ ایڈمنسٹریشن سے مطالبہ کرتی ہے کہ ھمیں ھمارا حق دیا جائے ف


تقریباً پندرہ سال پہلے علاقہ ماور کی عوام کے ذہنوں میں وادی بنگس روڈ کا خوبصورت منظر کھینچا گیا تھا اس سپنے کو لیکر   یہاں کی عوام نے خیالات کے پل باندھنے شروع کیے تھے کہ شاید انہیں بھی کبھی  اچھے دن دیکھنے کو نصیب ہوں گے  مگر یہ سپنہ اس وقت چکنا چور ہوتا نظر آیا جب بیکن اتھارٹی نے مذکورہ روڈ پر کام شروع کیا. اس وقت روڈ کی کشادگی سے متعلق جو حکم نامے سامنے آئے تھے  ان کے مطابق مذکورہ روڈ کو 66 فٹ کی کشادگی دینی مطلوب تھی۔ وقت گذرتا گیا اور شاید وقت کے ساتھ ساتھ زمین بھی سکڑتی گئ. آج اگر اس روڈ پر نظر دوڑائی جائے تو کلیجہ منہ کو آجاتا ہے اس روڈ کی کشادگی کہیں پر 30 فٹ اور کہیں 40 فٹ دکھائی دے رہی ہے مذکورہ محکمہ خاموش تماشائی بن بیٹھے ہیں. اسے افسر شاہی کہیں تو شاید غلط نہیں ہوگا..

سڑک کی کشادگی ،لیولنگ، کلوٹوں کی حالت زار  ،فٹ پاتھ اور ڈرینیج کی عدمِ موجودگی اور جگہ جگہ ناقص میٹریل کا استعمال گویا  زباں زدِ عام ہوگیا ہے۔ چند کلومیٹروں پر تارکول ضرور بچھایا گیا تھا جو ایک سال کے اندر اندر ہی گہرے کھڈوں میں تبدیل ہو گیا کہیں پہ وہ خود غرض لوگ  موردِ الزام  ٹھرائے جاتے ہیں جنہوں نے سرکاری خزانے سے لاکھوں روپے حاصل تو کیے مگر اپنی زمینیں اپنی ہی تحویل میں رکھنے میں فخر محسوس کیا .. آخر کیا ماجرا ہے کہ پندرہ سال گذر جانے کے بعد بھی مذکورہ سڑک ابھی بھی مکمل طور پر آمد رفت کے قابل نہیں ہو پا رہی ہے.. پندرہ سال سے علاقہ ماور کے لوگوں کو سر سبز باغ دکھانے کے سوا اور کچھ نہیں کیا گیا.. کچھ جگہوں پر سرکاری عمارات روڈ بننے میں رکاوٹیں کھڑا کر رہی ہے تو کہیںں پر چند خود غرض لوگ جنہوں نے موٹی موٹی رقومات تو ہضم  کی ہیں مگر زمین ہڑپ کر ابھی تک  دشواریاں کھڑی کئے  ہوئے  ہیں اور مجموعی طور پر ساری انگلیاں ایڈمنسٹریشن کی طرف اٹھتی ہیں جو سوئے ہوئے مست ہاتھی کی مانند خوابِ غفلت میں کچھ کرنے سے قاصر ہے۔اس کے علاوہ اس ساری صورتحال کی اصل وجہ یہ بھی  ہے کہ کوئی آواز اٹھانے والا فردِ بشر نظر   نہیں آرہا  ہے۔جیسےسب لوگ  کسی مہدی کی  آمد آمد کے  منتظر ہیں۔  ستم ظریفی کا عالم یہ ہے کہ یہاں کے سرخیوں میں رہنے والے سیاسی لیڈران نے بھی اس معاملے میں خاموشی اختیار کی ہوئی ہے  انہوں نے  بھی دوران اقتداریا اقتدار سے باہر رہکر اس حوالے سے کبھی لب کشائی کرنی گوارا  نہیں کی ۔آخر کون سے عوامل اس بر بریت کے پیچھے کارفرما ہیں جو عرصۂ دراز سے اس واحد دکھتی شہ رگ کا ممکنہ علاج نظر نہيں آپا رہا ہے۔؟؟؟. علاقہ کے عوام اپنی ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن سے خصوصاً اور مقامی ایڈمنسٹریشن سے عموماً بار   بار یہ سوال پوچھ رہی ہیں. آ خر ھم سب کن گناہوں کی  سزا بھگت رہے ہیں ؟

      

کیا ایڈمنسٹریشن عوام کے سڑکوں پر آنے کا انتظار کر رہی ہے..




Comments