مشاہدے سے اپنے خیالات کو الفاظوں میں تراشنے کے لیے قلم سے سیاہی اٹھائی ہے.. یقیناً مسلمان کو سب سے زیادہ پیار اپنے خالق سے ہونا چاہیے. جس کے باعث ہی ایک انسان مومن کی صفت پا سکتا ہے. خالق حقیقی کے بعد عرض و سماوات میں اگر کسی کی محبت دل میں پیوسط ہونی چاہیے تو وہ ہے اللہ تعالیٰ کے حبیب حضرت محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی .. یہاں پر مومن کے ایمان کی تصدیق ہوتی ہے.. اس کے بعد اگر کوئی پیار و محبت کے لائق یا یوں سمجھیں پیار و محبت کے حقدار ہیں تو وہ ہیں آپ کے اپنے خصوصاً ماں باپ اور اس رشتے سے جڑا ہر ایک فرد بشر،جو غم و خوشی میں ہمیشہ آپ کے شانہ بشانہ کھڑا رہتا ہے.. اس کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا رشتہ بنایا ہے جو چاہے کچھ بھی ہو آپ کا ساتھ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا وہ ہے آپ کا مخلص دوست..
زمانہ گواہ ہے کہ کچھ لوگ انسان کو ایسا سبق دیتے ہیں کہ اس کے بعد اس میں کوئی اور سبق سیکھنے کی ھمت نہیں رہتی. یہی وہ وقت ہوتا ہے جب اپنوں سے انسان واقف ہوتا ہے اور آسمان سے تارے توڑ کر لانے والے خوب دور سے تماشہ دیکھ رہے ہوتے ہیں. مقصد حیات اگرچہ حصول جنت ہی ہے پر اس کے لیے معاملات کا درست ہونا ضروری ہی نہیں بلکہ درست ہونا ہی مطلوب ہیں. اس ٥٠ یا ٦٠ سالہ زندگی کو تو جیسے تیسے کر کے جی لیں گے اس کے بعد اس زندگی کا کیا جس کا ایک ایک دن دنیا کے پنچاس ھزار دن کے برابر ہوگا.. اس وقت ھم بھاگنا چاہیں گے مگر بھاگ نہیں سکتے، دنیا میں واپس آکر من چاہا زندگی کو ترک کر کے رب چاہا زندگی گذارنا چاہیں گے مگر ھمیں وہ موقعہ فراہم نہیں کیا جائے گا..میں ایک بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اگرچہ ھمارے سامنے آگے کے احوال پہلے ہی پیغمبروں علیہ السلام نے وقت وقت پر آکر اولاد آدم کو سکھائے تو پھر ھم سے ایسی غلطیاں سر زد کیوں ہوتی ہیں.. اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل سلیم عطا کرکے اشرف المخلوقات بنایا ہے پر پتہ نہیں ھم شیطان مردود کے بہکاوے میں آکر اپنی دنیا سنوارنے کے بجائے اپنی آخرت تباہ کیوں کرتے ہیں. دنیاوی رنگینیوں میں محو ہو کر ھم قرآن مجید اور فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات کو کیوں پس پشت ڈال کر اپنی مرضی کے مالک بن بیٹھے ہیں..
آپ سوچ رہے ہونگے کہ لکھنے والا کوئی وقت کا ولی اللہ ہوگا بلکل بھی نہیں لکھنے والا پہلے اس زمرے میں شمار ہیں. کیا آپ کو ایسا محسوس نہیں ہو رہا ہے کہ ھم اللہ تعالیٰ کی عبادات سے زیادہ اپنے اندر دنیا پرستی کے بت کی بت پرستی زیادہ کرتے ہیں. اپنے اندر بغض، حسد اور کینہ کو پال کر اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں. یہی بت ھمیں روز محشر میں ذلیل و خار کر کے چھوڑے گا. ذرا سا غور کریں اس وقت کیا معاملہ ہوگا جب حساب کتاب چل رہا ہو گا تمام انبیاء کرام علیہم السلام، صدیقین اور صالحین موجود ہوں گے اور ھماری زبانوں پر تالے چڑھائیں جائیں گے. کیا ھم اس قابل ہیں کہ ھم شفاعت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی طلب کریں. کیا ھم وہی امتی رسول نہیں جنہوں نے آقا کی سنتوں کو کب کا پس پشت ڈال کر من چاہا زندگی کو اپنایا ہے.
مشاہدے سے لکھ رہا ہوں، وعظ و نصیحت روز کا معمول ہیں. علم و عرفان کی نہریں جاری ہیں، ہر طرف ہر جماعت دین اسلام کی آبیاری کے لیے محنت کرتے نظر آ رہے ہیں پھر بھی مجھ جیسے لوگ ان پر انگلیاں اٹھا کر اپنے اپنی مرضی کی زندگیوں میں مدہوش ہیں. ان باتوں کا جواب ھم اس وقت ملتا ہیں جب ھم کسی مصیبت کا شکار ہوتے ہیں یا یوں سمجھے اپنے گناہوں کی سزا بگھتنے لگتے ہیں پھر ھم سب کچھ بھول کر نماز اور صبر سے مدد مانگنا شروع کر دیتے ہیں. اس وقت بہت دیر ہوئی ہوتی ہیں پھر میرا وہ کریم رب ھمیں معاف کر کے ھمیں پھر سے جینے کی راہوں پر گامزن کرتا ہیں.. لکھتے لکھتے کہاں پہنچا کیا لکھ دیا آپ فیصلہ سنا دیں.. ھم تنقید برائے تعمیر کا انتظار کریں گے.. اللہ حافظ و ناصر
#خادم_کے_قلم_سے
Comments
Post a Comment