کشمیر جسے اولیاء و اتقیاء کی سرزمین کہا جاتا ہے جہاں اسلامی تعلیمات کی مبارک شعاعیں جب چھا گی تو پوری وادی ان مقدس و مبارک شعاؤں کی آغوش میں متمکن ہوگی تہذیب و تمدن ثقافت و حرفت کے وہ نت نئے انداز اپنائے اور سیکھئے گئے جن کے دامن میں رہ کر یہاں کے لوگ ترقیوں کی بلندیوں کو چھونے لگئے علم و ادب ہو یا صنعت و حرفت ہو ہر جگہ اہل وادی کے مکینوں نے اپنا لوہا منوایا اور پھر
زمانے کی رفتار نے کروٹ بدلی اور موجودہ طرز زندگی و معاشرت تک کا سفر اختیار کیا گیا جو سوائے اندھیرے کے کچھ بھی نہیں اہل دل ماتم کناں کے پر جاہ و حشمت کے شیدائی جن کی اب اکثریت ہے اسی اندھیرے میں اجالوں کا خاکہ پیش کر کر کے تھک گئے پر کہیں کوئی امید کی روشنی دیکھائی نہیں دیتی
کاش ہم واپسی کا سفر کرتے اور اپنی گمشدہ میراث کو اٹھا کر چلنے کی سعی کرتے شاید ان اندھیروں میں روشنی کا سفر ممکن ہوجاتا اور کامیابی ہمارے قدم چوم لیتی
وطن عزیز میں دن بہ دن ایسے واقعات و حوادث کا ظہور ہورہا ہے کہ معتدل با حیاء معاشرے جس کے ہونے سے انتہائی درجہ قلبی جذبات و احساسات کو بے بس و لاچاری ہوکر دیکھنے پر مجبور ہوجاتا ہے
امت مسلمہ جن کا طرہ امتیاز صالح معاشرے کی تشکیل ہے کی کثیر تعداد ہونے کے باوجود بھی نت نئی اُفتادیں ہر طرف پھن پھلائے ہوئے ہیں آدمی کا آزردہ ہونا لازم ہوجاتا ہے
کبھی معاشرے میں میں حیاء و پاکیزہ مزاجی کا عنصر اس درجہ غالب تھا کہ بوڑھی خواتین حیاء کی چادر میں رہنے کو باعث سعادت سمجھتی تھی اور مرد کی نگاہ میں بھی جھکاؤ رہتا تھا
پھر زمانے کی کروٹ نے حال کچھ یوں کردیا کہ ہر برائی ہر جگہ میسر اور دستیاب ہوگی اس میں ہم سب شریک ہیں
ہماری بیٹیاں ہوں یا بیٹے آج کل ان کی حرکات و سکنات دیکھ کر گن آتی ہے ان کی حرکات و سکنات کے دیکھنے سے ذی شعور انسان کی نگاہیں شرم سے جھک جاتی ہیں اور انہیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا
موبائل فون پر راز و نیاز کی ہی نہیں بلکہ حیاء باختہ گفتگو بنا ججھکے کی جاتی ہے وہ بھی بلند آواز میں کوئی شرم و حیاء نہیں بوڑھی خواتین اس گفتگو کو سن کر سر جھکا لیتی ہیں پر ہمارے ان پری زادوں یا پری زادیوں کو کوئی احساس نہیں جیسے انہیں بے حسی کا نشہ ہو اور وہ مخمور ہوکر اس میں مبتلاء ہوں پر اس میں سب سے زیادہ خاطی والدین ہیں جو ایسی آزادیوں کو جدید تہذیب یا کلچر کا فروغ کہہ کر نظریں چراتے ہیں
ہمارے معاشرے میں فطری عمل نکاح کو ہی لیجئے جس کے سوا نیک صالحہ معاشرے کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا پر کیا کیجئے اب اس نکاح کو کس کس طرح سے ہم نے مصیبت بنا دیا ہے وہ ہم سب جانتے ہیں دیں داروں سے لیکر دین بیزار تک سب ان واہیات رسم و رواج کی ترویج و اشاعت کے لئے کمر بستہ ہیں آپ شادی کے دن دولہے میاں کہیں کہیں چائے نوشی کو ترجیح دے کر خود کو صالح پیش کرکے تیسرے چوتھے دن ہا منگنی کے دن بھوکے بیڑیوں کی طرح دعوت طعام پر ٹوٹ پڑتے ہیں بس نمائش کے لئے تقریب رخصتی کو سادگی سے انجام دینے کا صرف ڈرامہ رچا کر نیک بن جاتے ہیں بقیہ رسوم و خرافات اپنی جگہ ہوتے ہیں غریب بیٹیاں ان امیر زادوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں اور تا عمر ان کے آنسو خشک ہونے کا نام نہیں لیتے ہر دن مرتی ہیں ایسے ہی اب بیٹیوں کی خواہشات کی تکمیل کے شوق اتنے زائد ہیں کہ مرد ان خواہشات کی تکمیل تک دادا نانا کی عمر تک پہنچ رہے ہیں اور پھر جنہیں دادا نانا ہونا چاہئے تھا وہ دلہا دلہن بن جاتے ہیں دوسرا اس دوران اپنے فطری جذبات کی تسکین کے ہر وہ حرام طریقے اختیار کئے جاتے ہیں جنہوں نے پورے معاشرے کو ذلیل و خار کر دیا ہے
دعوت کے نام پر ایسی ایسی چیزیں تیار ہورہی ہیں کہ ممکن ہے شاید آنے والے دنوں میں گر حلال گوشت ہم پڑجائے تو حرام گوشت کو بھی لذیذ بنا کر کھانے والے شام کو ایسی دعوت وغیرہ پر تنقیدی تبصرے کردین گئے
ہمارے ہاں المیہ یہ ہے ہم اپنے گناہوں اور خطاؤں کو چھپانے کا ہنر جانتے ہیں اب دیکھئے نا ہمارے ہاں ایسے کئی بظاہر دین دار لوگ ملیں گئے جو عرب معاشرے کی تباہ کاریوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں وہ بیٹیوں کو زندہ درگور کرتے تھے سود شراب بدکاری ان کے ہاں عام بات تھی وہ آپسی نفرت و کدورت کو ختم کرنے کے بجائے نسل در نسل منتقل کرتے تھے
کیا پوچھا جاسکتا ہے کہ ہم میں سے کتنے ایسے دین دار ہیں جنہوں نے اپنی بیٹیوں کو جینے کے حق سے محروم نہ کیا ہو ماں کے پیٹ میں ہی جنہوں نے ان کا قتل نہ کیا ہو یا زائد اولاد کے خوف سے بچے پیدا نہ ہونے کی سبیل نہ کی ہو گر عرب کے مشرک ظالم ہیں تو ہم کیا ہیں
ناچ گانا کام ہے گناہ کا تو ہمارے معاشرے میں تو اب نامی گرامی لوگ بھی بیٹیوں کے ٹھمکوں پر تالی بجاتے ہیں شادی بیاہ میں کیوں کہ ہمارا ضمیر مر گیا ہوتا ہے
کتنے لوگ ایسے ہیں جو سودی نظام سے منسلک نہیں ہوں گئے ہاں ہمارا معاشرہ بلکل اسی منہج پر رواں دواں ہے جس معاشرے کو ہم جاہل و گنواروں کا معاشرہ کہتے ہیں خیر
فضول خرچیاں شاہ خرچیاں کیا اب ہمارا امتیازی وصف نہیں بن رہا ہے تو کیسے کہتے ہیں کہ فضول خرچیاں کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں تو ہم لوگ کون ہیں
سنت نبوی کے مطابق شادیاں کرنے کا ڈھنڈورا پیٹا تو جاتا ہے تو کتنے ایسے ہیں جنہوں نے اس پر عمل کیا یا ایسی شادیوں میں جانے سے روک دیا خود کو جہاں غیر اسلامی رسومات کی بھر مار ہوتی ہے
ہم جھوٹے پر کہتے ہیں اللہ نے لعنت کی ہے تو کیا ہم خود اس جھوٹ سے پرہیز کرتے ہیں اور کس درجہ کرتے ہیں
ضد انانیت حسد و بغض آپسی عناد کون سی برائی ہے جو اب ہمارے ہاں نہیں ہے
ہم اکثر دوسروں کو قصور وار قرار دے کر پلو جھاڑ لیتے ہیں کبھی سوچا ہے کہ ہم تہذیبی روایات کو کس قدر روند کر کتنا آگئے نکل چکے ہیں جہاں سے شاید واپسی ممکن نہ ہو
ہم نے کیا کیا نہ کیا
اب دیکھئے نا ایک صاحب صبح دس بجے تک سویا رہتا ہے یا سودی کمائی کرتا ہے یا رشوت خوری
اور کہتا ہے بھائی آج کل کی کمائی میں برکت کہاں کیوں کہ ہم نافرمان ہیں مالک کے ارے بھائی شرم نام کی کوئی چیز ہوتی ہے کیسے کہتے ہیں ہم خود گناہ کرکے لعنت ابلیس پر کرتے ہیں
میں معاشرے کے ان پنوں کو چھیڑ کر ممکن ہے خطا کار ٹھہرایا جاؤں پر یقین رکھنا ایسی تہذیب مٹ جاتی ہے جس میں باتیں زائد ہوں اور عملی اقدام نا کے برابر کم سے کم ہم اپنی حد تک تو بدل سکتے ہیں پر نہیں ہم کیوں بدلیں تہزیب نئی ہے اسی میں خود بھی اور قوم کو بھی ڈوب کر مروانا ہے یہ ہماری کوشش ہے اور ہم سب اس میں شریک ہیں بجائے اس کے اس طرح کی ہر قسم کی خامیوں اور برائیوں کو قبول کرکے ان سے فاصلہ بناتے ہم تاکہ ان خرابیوں سے ہم کو اور پوری قوم کو نجات ملتی پر ایسا دور دور تک نظر نہیں آتا کہ ہم انفرادی یا اجتماعی طور ان سے الگ رہ ہوجائیں تو ایسے میں ایک صالح معاشرے کا تصور کرنا نیند کی حالت میں جنت میں جانے جیسا ہے کہ بیدار ہوئے نہیں خواب کی خوشیاں چور چور ہوگئیں
اب تھکا ماندہ ہمارا وجود کسی دلدل میں گر چکا ہے شاید ہم ادراک سے بے بہرہ ہیں یا جان کر انجان بنتے جارہے ہیں
یا ربی کوئی امید سحر ہو ایسی جو ہمارے مردہ وجود میں پھر سے زندگی کے آثار جیسی حرکت کو تقویت بخشے تاکہ ہم پھر سے جینا سیکھ لیں اور اپنا وجود برقرار رکھ سکیں
فی امان اللہ
Comments
Post a Comment