اساتذہ کرام سے چند باتیں

 دل کی صدا 

 اساتذۂ سے چند باتیں 

      باتیں ہیں باتوں کا کیا 


چند دن سے یوم اساتذہ کا انعقاد ہو رہا ہے جہاں دیکھو یوم اساتذہ کے تذکرے ہورہے ہیں کسی نے اپنے استاد کی یاد میں باتیں کیں تو کسی نے استاد کو تحائف دے کر از دن کو منایا اچھی بات ہے استاد سماج کا وہ طبقہ ہے جس کا ہنر لاثانی ہے جس کی کاریگری اقوام کو زندہ و جاوید رکھتی ہے جس کی ہمت فراخ دلی محنت و شفقت اقوام کو بلندی عطا کرتی ہے  استاد کو ہر معاشرے میں قابل عزت و افتخار قابل ستائش و احترام تسلیم کیا جاتا ہے اسلام نے بھی اس کا مرتبہ بیان کیا 

خود امام کائنات محمد عربی ﷺ کا مرتبہ یوں ہے 

لفظ اقرا سے نبوت کا آغاز ہوا۔آپﷺ کی ذات تمام انسانوں کے لیے نمونہ قرار پائی۔آپ ﷺنے “انما بعثت معلما””مجھے معلم بنا کر بھیجا گیاہے”

کے ذریعے  اپنا مقام واضح کر دیا۔

اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا     

  اوراک  نسخہ کیمیا   ساتھ لایا

آپ نے بیان کیا میں معلم بنا کر بھیجا گیا اس ایک فرمان سے  ہم سب معلم کی حیثیت سے بخوبی واقف ہوگئے 

کیوں کہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ 

آپ ﷺ ایک کامیاب معلم تھے۔ کیاعجب تعلیمات تھیں۔عبادات، اخلاقیات ، معاملات ، معاشرت، تجارت، غزوات، دعوت دین کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں آپ ﷺ کی دی ہوئی تعلیم ایک راہنما اصول نہ ہو۔ کتب حدیث میں علماء محدثین کی ان کاوشوںکو بھی بغور دیکھا جاسکتا ہے جو انہوں نے احادیث رسول کو پیش کرنے سے قبل عنوانات کی صورت میں فہرست سازی کی ہے

  حضرت علی المرتضیؓ معلم کا مرتبہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں 

  کہ جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھا دیا میں اس کا غلام ہوں خواہ وہ مجھے آزاد کر دے یا بیچ دے۔(تعلیم المتعلم ۔21)

یوں اسلام نے معلم کا مرتبہ حیثیت دائری ادب بیان کیا آپ گر تھوڑا سا وقت صرف کریں گئے تو آپ حیران رہ جائیں گئے کہ بہت بڑے بڑے ائمہ کرام محدثین اپنے استاد کا اس درجہ ادب کرتے تھے کہ ان کے جوتے صاف کرنے میں ساتھی طلبہ سے سبقت لے جانے کے لئے کوشاں رہتے اپنے استاد کے گھر کی اور پاؤں نہ پھیلاتے کہ مبادا بے ادبی نہ ہو  اسلام نے معلم کی خوب تعظیم و تکریم کی تعلیم دی ہے 

خیر 

ہمارے اساتذۂ 

رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے 

استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے 

نامعلوم 

بچپن میں جب پہلی بار اپنے اساتذہ کو دیکھا تو وہیں معلمات بھی تھیں اور معلم بھی تھے مجھے آج بھی یاد ہے وہ سادہ مزاج معلمات شرم و حیاء کا زیور اوڑھے نگاہوں میں پاکیزگی کا تصور لئے جب بھی ہمارے سامنے آتی تو اک اپنائیت کا احساس ہوتا ایسا لگتا یہ ہماری انتہائی شفیق کوئی اپنی ہیں جن کی شفقت و محبت کی آغوش میں قلم تھامنا ہم نے بھی سیکھ لیا ان کی وہ ہلکی سی مار اور مار کر پھر وہ شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرنا آنسو آتے تو ان کا وہ ہمارے آنسو صاف کرنا واللہ وہ ادائیں ہم تا حیات بھول نہیں سکتے 

معلم حضرات کا کیا کہنا انہیں دیکھ کر ہم کیا کیا بہانے نہ تراشا کرتے کیا کیا الم بیان نہ کرتے کہ کہیں انہیں غصہ نہ آئے ہم پر اور پھر ہماری کمر ہاتھ کتنے مہندی رنگ کے لگتے وہ ہم جانتے ہیں پر کھیل کے وقت وہ ہمارے استاد بچے بن جاتے  ہمارے زمانے میں تختیاں اسکول لے جانی ضروری تھیں بچے بڑے شرارتی ہوتے مجھے یاد ہے تختیاں لے کر اسکول سویرے پہنچ جاتے اور ایک طرف وہ بستہ اور تختی رکھ دیتے خود کھیل کود میں مصروف ہوجاتے وہ کتابوں کے بستے کم اور آٹے کے بیگ زیادہ ہوتے کوئی بچہ چوری چھپے ہماری تختی کو ایک طرف سے صاف کر دیتا اور یوں ہماری محنت رائیگاں ہوجاتی ہم بڑی تیزی سے تختیاں دیکھاتے پر اساتذہ بھی کیا کم تھے ہماری تیزی سمجھ جاتے اور پھر مرغا مرغے بن جاتے مرغیاں تو  خیر کھڑی ہی رہتی ہم بیچارے مرغوں کی طرح رکھے جاتے  ایک بار بار استاد کے کہنے پر بھی ہم تختیاں نہیں لائے تو شالکوٹ نامی بستی میں  ایک استاد تھے دومیندر سنگھ جی انہوں نے ہم سب بچوں کو لائن میں کھڑا کیا اور بولے کیوں نہیں لائے ہم نے بہانے تراشنے شروع کئے انہوں نے کسی بھی بچے کو نہیں مارا بلکہ کہا 

چلو قسم کھا لو کل سے لاؤ گئے ہم نے قسمیں کھانی شروع کی تو بولے رکئے چلو اول کلمہ طیب پڑھو ہم نے کلمہ پڑھا اور انہوں نے کہا اب اسی کی قسم کھاؤ کل تختیاں لاؤ گئے یوں ہم نے قسم کے خوف سے تختیاں لائیں اور ہمارے ہاتھ لکھنے کے قابل ہوئے مجھے یاد ہے ایک بار کوئی درخواست لکھ کر میں نے اسکول سے نکلنے کے دوچار سال بعد انہیں دیکھائی تو کہا واہ شاباش بیٹا آپ تو بہت اچھا لکھتے ہیں واہ یہ لو دس روپیہ انعام کا 

اقبال صاحب ایک تھے جوانی ان کی شباب پر تھی تھے بھی بڑے خوبصورت اشموجی کے رہنے والے یہ وہ شخصیت ہے جنہوں نے a b c d  ہم جیسے دور دراز کے بچوں کو سیکھائے ان کی شفقت کے ساتھ ساتھ ان کی مار بھی آج تک یاد ہے بڑے ہی پیارے تھے ہونٹوں پر مسکان لئے سب سے گل مل جاتے ہمیں ان سے والہانہ لگاؤ تھا یہ اس زمانے میں ہمارے لئے کسی ہیرو سے کم نہ تھے خیر آج تو بوڑھے ہوگئے ہیں پر تعلق اب بھی بنا ہوا ہے 

ان اساتذہ کی تربیت ان کا انداز وہ سیکھانے کا مجھھ یاد ہے ذرا ذرا وہ اچھے معلم ہی نہیں بلکہ زندگی کے داؤ پیچ بھی سیکھاتے تھے مجال ہے کوئی ہیرو گری اسکول میں کرتا یا کوئی بری حرکت گالی گلوچ  سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہ ہر بری بات پر ڈانٹ ڈپٹ کرکے ہمیشہ نیکیوں اور پاکیزہ اخلاق کی تعلیم دیتے  

کریری کے ایک اسکول میں  پڑھائی کر رہا تھا کہ ایک دن یہاں کے موٹے تازے ساتھی طالب علم سے لڑائی ہوئی وہ لڑائیاں اب کہاں لڑائی اس قدر شدید تھی کہ وہ مارے جارہا تھا اور میں بچاؤ میں بھی ناکام ہورہا تھا وہ طاقت تھا اور پھر اس کا وہ موٹاپا مجھے بے بس کئے ہوئے تھا خیر اچانک سے اس کی گرفت سے چھوٹ گیا اور ہاتھ میں تختی تھی بازار سے نئی نئی لی تھی تو اس تختی نے وہ ساتھ دیا کہ جناب کی کمر اور ہاتھ خوب لال ہوگئے اور میں بھاگ گیا پھر محترم نذیر صاحب نے دوسرے دن پکڑا کان کھینچتے ہوئے بولے چلو معافی مانگ لو اور اسے گلے لگا لو تب سے وہ جناب میرے یار بنے ہوئے ہیں یہ وہ ہیرے تراشنے والے تھے جن کی تعلیم گر چہ کم ہوا کرتی تھی پر ان کی اخلاقیات ان کی سادگی ان کی شفقت اور اپنے کام کے تئیں حساس ہونا ہی ان کہ کامیابی تھی میں نے اپنے اساتذہ کو ایک سے بڑھ کر ایک پایا انہوں نے ہمیں کبھی یوم اساتذہ پر استاد کا مرتبہ نہیں بتایا پر یہ وہ عظیم اساتذہ تھے جن کا ادب اور جن کی قدم بوسی اب بھی کرنے کو جی چاہتا ہے ان کی شفقتون سے ہم انسان ہوئے ادب خود آیا انہیں دیکھ دیکھ کر   تب یہ ہوتا کہ استاد نے کام کہا اور ہم سبقت لے جانے میں خوب کوشش کرتے  یہ بیتے دنوں کی خوبصورت یادیں ہیں ہمارے اساتذہ ہمارا فخر ہیں آج بھی 


یوم اساتذۂ 

جب انسان اصل سے منہ پھیر لیتا ہے یا اپنے معاشرے تہذیب و ثقافت سے لاتعلق ہوکر اپنی ضد انانیت کا شکار ہوکر اپنی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کرتا ہے تو نتائج بلکل اس کے سوچ سے الگ آتے ہیں 

تہذیب  و ثقافت یوں ہی دنیا سے نہیں مٹ جایا کرتی ہیں بلکہ انہیں مٹانے انہیں برباد کرنے کے لئے کئی ماہ و سال صرف ہوجاتے ہیں کسی قوم کی بقاء و فلاح اسی میں مضمر ہے کہ اس کے علماء و دانشور  و معلمین اپنی قوم و ملت کے تئیں حساس ہوں پر ہماری تہذیب و ثقافت آخری ہچکیاں  لے رہی ہے نتائج وہی جو ہم دیکھ رہے ہیں 


کیا سبب ہوا کہ اب ہمیں چند سالوں سے یوم اساتذۂ منانے کے لئے سیمنار کانفرنسس کرنے کی ضرورت پیش آئیں اور اللہ خیر کرے کئی جگہوں پر تو اس دن بجائے اساتذۂ کی تعظیم ادب و احترام کی تعلیم کے  معصوم بچیوں کو اسٹیج پر کسی گانے پر نچایا جاتا ہے اور اس ناچ گانے میں ایسا انداز اختیار کیا جاتا ہے جیسے یہ سب طلبہ اپنے استاد پر جان چھڑکتی ہوں استاد دو طرفہ قطار کے درمیان خراماں خراماں اسٹیج کی اور چلتا رہتا ہے سوشل میڈیا پر چند ایسے اساتذہ بھی دیکھے گئے جو باضابطہ اپنے اسکولی طلبہ و طالبات کے ساتھ ناچ گا رہے ہیں  

عجب انداز تربیت ہے کیا ہم اس سب کو کسی مہذب و بہتر معاشرے کی تشکیل میں  معاون کردار کے لحاظ سے تسلیم کر سکتے ہیں استاد محترم گر خود بچوں کے سامنے نشہ کرے سگریٹ نسوار وغیرہ کا عادی ہو تو بھلا کیسے وہ بچوں کو اس سے بچاؤ  کی تیاری کرائے  گر استاد پڑھانے سے زیادہ فضول قسم کی واہیات پر اپنا وقت اور بچوں کا وقت برباد کرتا ہو تو کیسے اس کے طلبہ ایک بہتر انسان کی طرح اس سے مؤدبانہ سلوک کریں گئے استاد گر خود ہی اپنے وقار اپنی عظمت سے تغافل بھرت رہا ہو تو کیا فائدہ اس بات کا کہ یوم اساتذۂ  منایا جائے 

مسلمان کی کوئی تخصیص نہیں کرتے بلکہ ہر قوم کے اساتذۂ اس قوم کی بقاء و فلاح کے ضامن ہونے کے سبب قوم کے لئے انتہائی درجہ قلبی جذبات کے ساتھ لائق صد احترام مانے جاتے ہیں کیا سبب ہوا کہ ہم اپنے اس لائق و فائق طبقے سے لاتعلق ہوتے جارہے ہیں ایسا نہیں ہے کہ آج کے اساتذۂ میں احساس ذمہ داری نہیں  ایسا نہیں ہے بلکہ کئی اساتذۂ کو میں جانتا ہوں جو اپنے اسکول میں اپنے معاشرے میں آج بھی لائق احترام و تحسین  مانے جاتے ہیں جن کے سامنے صرف ان کے طلبہ ہی نہیں بلکہ عام لوگ بھی نظریں جھکا لیتے ہیں یہ کوئی ڈکٹیٹر قسم کے نہیں ہوتے بلکہ ان کی اخلاقیات کا ان کی محنت کا ایمانداری پاکیزہ مزاجی کا یہ اثر ہے کہ لوگ انہیں لائق احترام و محبت سمجھتے ہیں  اللہ کرے کہ وہ دن لوٹ آئیں کہ ہمارے یہ اساتذۂ  ہمارے لئے باعث افتخار بن جائیں 

خرابی کہاں 

ہم یوم اساتذۂ منانے کو نہ تو حرام کہتے ہیں نہ ہی وہ بدعت کہ جس سے دین و ایمان خطرے میں  ہو یہ ایسا ہی ہے کہ ہم کسی جگہ علماء کنونشن منائیں اس غرض سے کہ عوام کو علماء کرام کی تعظیم علماء کا رتبہ سمجھائیں تاکہ وہ اہل علم کی قدر و منزلت سے واقف ہوکر ان کا وقار مجروح کرنے سے باز رہے ایسے ہی یوم اساتذۂ  کا مسئلہ ہے اب یہ مغرب کی یا مشرق کی ایجاد ہو اس سے بھی کوئی طوفان نہیں آنے والا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں ایسی کیا ضرورت آن پڑی کہ ہم یہ دن منانے لگئے کہیں ہم اصل سے فرار اختیار کرکے  اپنی احساس ذمہ داریوں سے فرار اختیار کرکے اپنے لئے پھر بھی عزت و تکریم کے طالب تو نہیں ایسے کیسے ہوسکتا ہے کہ ہمارا رویہ ہمارا کردار گفتار اٹھنا بیٹھنا ہمارے عادات اطوار ہمارے طلبہ کو مائل نہ کریں ہماری تعظیم و تکریم کے لئے اس لئے ہم انہیں سمجھائیں کہ وہ کیا کریں  

میرے پیارے اساتذۂ 


آسان سمجھتی ہے کیوں تدریس کو دنیا

ذروں کو یہ خورشید بنانے کا عمل ہے

آپ سلامت رہیں خوشیاں آپ کے دامن میں آباد رہیں آپ کو وہ بلندیاں نصیب ہوں کہ آپ کا دل جنہیں پاکر سکون پائے پر یاد رکھیں  کہ خوشیاں پانے کے لئے آپ کسی کو مائل نہیں کرسکتے کہ وہ آپ کو خوشیاں دے تحائف دے خوشیو صرف باتوں سے نہیں آتی بلکہ اس کے لئے ایسا کردار و گفتار طرز زندگی بھی لازم ہے جس سے شخصیت مہکتی ہو جس کی مہک آپ کے ساتھ ساتھ آپ کے آس پاس بھی محسوس ہو تو یقین کریں خوشیاں آپ کے قدم چومے گئیں  گر آپ اپنے وجود کا جائزہ لے کر اس وجود کو سنوار کر اپنے آس پاس تھوڑی سی خوشبو بکھیرنے میں کامیاب ہوجائین تو 

واللہ آپ پوری دنیا کے لئے قابل احترام ہیں آپ ہیں تو ہم ہیں آپ نہیں تو ہم نہیں بس تم زندگیوں کو سنوار دوزندگی آپ کی مسرور و شادمانی رہے گئی 


 


Comments